ہفتہ، 18 جولائی، 2020

کئی سال تک وزن کم کرنے کی ناکام کوشش کے بعد خاتون نے کون سے پانچ اصول اپنا کر ایک ہی سال میں 47 کلو وزن کم کر لیا:



زندگی تو سب ہی گزارتے ہیں -مگر اس دنیا ميں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں -جو کہ دوسروں کے لیے مثال بن جاتے ہیں - ایسی ہی ایک لڑکی کیا ٹیوسلمین بھی ہیں -جن کا تعلق کیلی فورنیا سے ہے -اور جس کے والدین کے موٹاپے کے باعث اس کو بھی موٹاپا ورثے میں ملا - بچپن کی گول مٹول سی کیا نے جب جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو وہ ایک فربہہ لڑکی میں تبدیل ہو چکی تھیں -اور کئی سالوں تک وزن کم کرنے کی کی جانے والی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہو رہی تھیں -

زندگی تبدیل کرنے والا مرحلہ
ایک دفعہ جب کیا جہاز میں سفر کر رہی تھیں -اور سیٹ بیلٹ کے باندھنے کے مرحلے میں کیا نے یہ محسوس کیا کہ ان کا وزن اب اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ وہ سیٹ بیلٹ بھی نہیں باندھ سکتی ہیں - یہ وقت ان کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب آئندہ زندگی کو کیسے گزارنا ہے -اس کے لیے انہیں خود ہی جدوجہد کرنی ہو گی -

وزن میں زیادتی کے نقصانات
کیا کا اس موقع پر یہ کہنا تھا -کہ وہ اس بات سے واقف تھیں -کہ ان کو وزن کی اس زیادتی کے سبب ہائی بلڈ پریشر اور ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہونے کا شدید خطرہ بھی لاحق ہے -کیوں کہ یہ دونوں بیماریاں ان کی خاندان میں موجود تھیں -اس کے علاوہ زندگی کے کئی محاذوں پر اپنے موٹاپے کے باعث وہ شدید ذہنی اور جسمانی دباؤ کا بھی شکار رہی ہیں -


کیا کا اس موقع پر یہ کہنا تھا -کہ اپنے موٹاپے کے باعث وہ اپنی پسند کا لباس نہیں پہن سکتی تھیں -ان کے دوست بھی ان کے موٹاپے کے باعث ان کو نظر انداز کر دیتے تھے -اور زںدگی کے بہت سارے معاملات میں وہ اس موٹاپے کے باعث پیچھے رہتی جا رہی تھیں -

وزن کم کرنے کے سفر میں ہونے والی ناکامیاں
کیا کا اس موقع پر یہ بھی کہنا تھا -کہ زندگی میں کئی مواقع ایسے بھی آئے جب انہوں نے شدید محنت سے کچھ پاؤنڈ وزن کم بھی کر لیا - مگر اس کے بعد کچھ ہی دنوں میں ذرا سی بے احتیاطی کے سبب یہ وزن دوبارہ سے بڑھ جاتا اور اس سے اتنی مایوسی ہوتی کہ وہ ہمت چھوڑ کر بیٹھ جاتی تھیں -

ایک سال میں 47 کلو وزن کم کرنے کا طریقہ
مگر جہاز کے سفر کے بعد کیا نے یہ فیصلہ کیا کہ اب انہوں نے خود کو تبدیل کرنا ہے -اور ایسا بننا ہے کہ جو دوسروں کے لیے ایک مثال بن جائے - اس فیصلے کے بعد کیا نے اپنی زندگی کو پانچ اصولوں کے مطابق تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا یہ اصول کچھ اس طرح تھے -


1 : صبح ایک گھنٹہ پہلے جاگیں
اس اصول کے مطابق کیا نے یہ اصول بنایا -کہ وہ روزانہ ایک گھنٹہ جاگتیں اور یہ وقت ان کےاپنے لیے ہوتا - اس وقت میں وہ ورزش کرتیں اور ایمانداری سے اس پورے ایک گھنٹے میں وہ اس بات کی کوشش کرتیں کہ اپنے وزن کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں -

2 : تیس منٹ تک جسمانی ورزش لازمی کرتیں
تیس منٹ تک لگاتار ایسی ورزش کرتیں جس سے نہ صرف ان کے جسم کے ہر ہر حصے کو حرکت دی جاتی بلکہ اس بات کا اہتمام کیا جاتا کہ جسم کو اس طرح کی ورزش میں مصروف کریں -جس سے جسم تھک جائے اور اس سے پسینہ نکلے جو کہ جسم کے ان حصوں سے فاضل چربی کو پگھلانے میں معاون ثابت ہوتا ہے -

3 : کھانا صرف زںدہ رہنے کے لیے کھائیں
جو لوگ کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں -وہ صحت کے سنگین مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں -جن میں سے موٹاپا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے -  اس لیے کیا نے کھانے کی وہ تمام اشیاﺀ کو چھوڑ دیا -جو کہ اس کے لیے غیر صحت مند تھیں -اور وزن میں اضافے کا باعث ہو سکتی تھیں - اس کے بجائے انہوں نے صرف اتنے کھانے پر اکتفا کیا جس سے زندہ رہا جا س

4 : زیادہ پانی پئيں
کیا کا اس حوالے سے یہ کہنا تھا -کہ انہوں نے یہ اصول بنایا کہ دن بھر میں بے تحاشا پانی پیا جائے - زیادہ پانی کا استعمال بھی جسم میں سے زہریلے مادوں کے اخراج کے ساتھ ساتھ جمی ہوئی چربی کو پگھلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے -

5 : ہر روز ان دس چیزوں کو تحریر کریں جن کا شکر ادا کیا جاتا ہے
-جسمانی صحت روحانی صحت کے بغیر ناممکن ہے -اس لیے کیا نے اپنی زںدگی میں روحانی صحت کے لیے یہ اصول بنایا کہ ہر روز دس ایسی چیزوں کو ضرور قلم بند کرتی تھیں -جن کے لیے وہ قدرت کی شکر گزار تھیں - اس سے ان کو روحانی سکون حاصل ہوتا اور ان کی زندگی اور سوچ میں مثبت تبدیلی واقع ہوتی اس عمل سے وزن کم کرنے کے مشکل سفر میں نہ صرف انہیں مدد ملتی بلکہ مایوسی ختم ہونے میں بھی مدد ملتی -

لوگوں کے لیے پیغام
پچیس سالہ کیا اس تبدیلی کے بعد نہ صرف لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئی ہیں -بلکہ اب وہ لوگوں کو باقاعدہ وزن میں کمی کے لیے لیکچرز بھی دیتی ہیں - ان کا اس حوالے سے کہنا ہے -کہ ہمیشہ چھوٹے ٹارگٹ رکھیں اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں -

کورونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستانی سیکس ورکرز کِس حال میں ہیں-؟



ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا کورونا ، کورونا کا شور مچا ہے - ہر ایک کی طرح عاشی اور شہزادی نے بھی یہ مشورے سینکڑوں نہیں تو درجنوں بار ضرور سُنے ہیں - فرق صرف یہ ہے -کہ لوگ اِن ہدایات پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں -جبکہ اِن دونوں کا پیشہ اُنھیں یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا -

عاشی اور شہزادی [فرضی نام] سیکس ورکرز ہیں -اور پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں میں جسم فروشی کا کام کرتی ہیں - ہم نے جاننے کی کوشش کی کے وہ سیکس ورک کی طرف کس طرح آئیں -اور کورونا ان کی زندگیوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے -؟

عاشی ، لاہور

میں لاہور میں رہتی ہوں -اور مجھے اِس شعبے میں آئے چار سے پانچ سال ہو گئے ہیں - میں یہاں ایک شخص سے وابستگی کے بعد آئی - میری اُس سے دوستی ہوئی اور اُس نے مجھے اِس کام میں پھنسا دیا -

میں شادی شدہ تھی -اور گھر میں آئے دن ہماری لڑائی رہتی تھی -کیونکہ شوہر کی کمائی ہی نہیں تھی - پھر میرا فون کے ذریعے ایک لڑکے سے رابطہ ہوا - ایک دن اُس نے مجھے باہر بلوایا - پھر وہ مجھے ایک جگہ لے گیا جہاں وہ مزید تین چار لڑکوں کو لے آیا - وہ بولا کہ اِس طرح کرو گی تو آپ کو پانچ سو روپیہ ملے گا -

اس وقت میرے حالات ایسے تھے -کہ مجھے یہ کرنا پڑا لیکن پھر مجھے بھی عادت ہو گئی - میں نے سوچا چلو کمانے کا ایک ذریعہ سہی -

میرے سات بچے ہیں - میں نے سوچا گھر میں کمائی آئے گی تو بچوں کے ہی کام آئے گی - میں اُن کے ہی لیے یہ سب کچھ کر رہی ہوں- سب کو پڑھا رہی ہوں - میرے ساتھ اس گھر میں میرا خاوند بھی ہے - ساس بھی ہیں، دیور بھی رہتے ہیں - لیکن میں انھیں یہ کہہ کر جاتی ہوں -کہ میں ملازمت کرنے جا رہی ہوں -

کورونا وائرس سے ہمارے کام پر بہت فرق پڑا ہے - ہماری فیلڈ کی ساری لڑکیاں کم از کم جنھیں میں جانتی ہوں وہ باہر نکلنا کم ہو گئی ہیں - میں بھی پہلی بار تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد باہر نکلی تھی - جب دیکھا کہ گھر میں حالات اِس قابل نہیں ہیں تو پھر باہر نکلنا پڑا -

لیکن اب ہر شخص ہمارے پاس آتے ہوئے ڈرتا ہے - لوگ ڈرتے ہیں -کہ کہیں اُنھیں بھی کورونا نہ ہو جائے - ہم لوگ بھی اُنھیں بلاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ سو وہم آتے ہیں - اِس وجہ سے کام بہت کم ہوگیا ہے -

جب ہم دیکھتے ہیں -کہ کسی شخص کو کھانسی ہے ، نزلہ ہے -تو اُن لوگوں سے ہم ملتے بھی نہیں ہیں -کہ کہیں انھیں کورونا نہ ہو - خوف آتا ہے -کہ کہیں ایسے لوگوں سے مل کر ہم اپنا نقصان ہی نہ کر لیں -

لیکن اگر کوئی بندہ لگتا ہے -صحت مند ہے -تو اُس سے ہزار ، پانچ سو لے لیتے ہیں ۔ اِس طرح دیہاڑی کا خرچہ نکل آتا ہے - کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں لوگوں کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے - اپنے پرانے گاہکوں کو فون کرنا پڑتا ہے -کہ پانچ سو ہزار (روپے) بھجوا دو - کچھ لوگ کر دیتے ہیں اور کچھ بہانے بنا دیتے ہیں -

ہمارا کام ہی ایسا ہے -کہ اِس میں سماجی فاصلہ نہیں ہو سکتا - جتنی مرضی احتیاط کر لیں لیکن نہیں ہو سکتا - ہم سب لڑکیوں میں سے کسی نے کورونا کا ٹیسٹ تو نہیں کروایا ہے - لیکن اب تک کسی میں کورونا کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی ہیں -

میں نے سُنا ہے -کہ وائرس دن بدن بڑھتا جا رہا ہے - بے شک پابندیاں ختم بھی ہو جائیں لیکن وائرس کے ڈر سے لوگ کہیں نہیں جائیں گے -


شہزادی ، کراچی:

مجھے اِس فیلڈ میں پندرہ بیس سال ہو گئے ہیں - شادی شدہ ہوں اور میرے چار بچے ہیں - میرے شوہر کماتے نہیں تھے -تو پھر ظاہری بات ہے -آج کل کے حالات میں بنا پیسوں کے تو کچھ بھی نہیں ہوتا - تو میری ایک دوست تھیں وہ مجھے لے کر آئیں - انھوں نے بولا یہ کام کرنا ہے - پہلے تو میں بالکل بھی -اِس کام کے حق میں نہیں تھی -لیکن جب گھر میں زیادہ مسائل ہوئے تو مجھے مجبوراً اِس کام میں آنا پڑا -

میں نے اپنے گھر والوں کو یہ بتایا ہے -کہ میں بنگلے میں کام کرتی ہوں - مجھے گھر کے کام کاج کے لیے رکھا ہوا ہے -

شوہر کو میرے کام کا پتا ہے - لیکن جب وہ کوئی کچھ دے نہیں سکتا تو منع کیا کرے گا - اُنھیں تو پیسوں سے مطلب ہے - کہ پیسہ کماؤ اور گھر لے کر آؤ -

اب جیسے یہ کورونا کا مسئلہ چلا ہوا ہے -تو کام بالکل نہیں آتا - ہم فارغ بیٹھے رہتے ہیں - سارا سارا دن ۔ اکا دکا گاہکوں سے تو ہمارا گھر نہیں چلتا - ہم خود بہت پریشان ہو گئے ہیں - کہ کمائیں کیا اور کھائیں کیا -اگر کسی کو مدد کے لیے کہا بھی تو جواب ملا کہ تم یہ کام کرتی ہو خود کما کر کھا لو -


کئی مہینوں کے بعد اب کام کُھلا تو ہے -لیکن وہ پہلے والی بات نہیں ہے - پہلے ہم دن میں تقریباً تیس چالیس گاہک کر لیتے تھے -لیکن اب تیس چالیس تو بہت دور کی بات ہے -دو تین ہی ہو جائیں تو بڑی بات ہے - گاہک بھی آتے ہوئے گھبراتے ہیں - ہم بھی گھبراتے ہیں -لیکن کیا کریں ہم نے تو کمانا ہے - اب ہم اپنا گاہک اِن سب چیزوں کے لیے تو نہیں چھوڑ سکتے - اگر بندے کو کوئی مسئلہ ہو بھی تو ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے - ہم اُس کو منھ پر تو منع نہیں کر سکتے کہ ہم نہیں کر رہے تم جاؤ -

ہم نے تو آج تک کسی کو نہیں دیکھا کہ کوئی ماسک لگا کر یا سینیٹائزر استعمال کرنے کے بعد یہ کام کرے - کسی نے اگر یہاں آنے سے پہلے ماسک پہنے ہوتے ہیں -تو وہ بھی اُتار دیتے ہیں - ظاہری بات ہے -کہ لوگ جب یہ کام کرنے آتے ہیں -تو وہ تو وحشی ہی ہوتے ہیں -ناں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وائرس کسی دوسرے کو بھی لگ سکتا ہے - پھر اُن کی باتیں ماننی پڑتی ہیں - اگر ہم کچھ کہتے ہیں -تو جواب ملتا ہے -کہ اگر ایسا ہے -تو گھر میں بیٹھو باہر ہی کیوں نکل رہی ہو -

الیومناٹی ، دنیا کے طاقتور افراد کا خفیہ گروہ : ایک ایسا سازشی نظریہ جو دنیا پر چھا گیا:


 فیوچر آپ کے لیے تفصیل کے ساتھ کچھ اہم کہانیاں پیش کر رہا ہے -جو آپ کو موجودہ وبا کے دوران وقت گزارنے میں مدد دے سکیں ، اور آپ باآسانی اپنا وقت گزار سکیں - ہم گذشتہ تین برسوں کی اپنی پرانی کہانیوں کو دوبارہ سے ''لاک ڈاؤن لانگ ریڈز'' کے عنوان سے آپ کے لیے شائع کریں گے -

ان کہانیوں میں آپ کو سب کچھ پڑھنے کو ملے گا ، دنیا کے سب سے بڑے خلائی مشن سے لے کر کہ کیا بلیاں واقعی ہم سے پیار کرتی ہیں ، ایک غیر قانونی مچھیرے کو عدالت کے کٹہرے تک لانے کی طویل کہانی اور ایک چھوٹی سے ٹیم جس نے دوسری عالمی جنگ کے دفن شدہ ایک ٹینک کو نکال کر دوبارہ قابلِ استعمال بنایا - البتہ آپ کو ان کہانیوں میں ایک چیز کی جانب اشارہ نہیں ملے گا ، اور آپ جانتے ہیں کہ وہ کیا ہے - پڑھنے کا لطف لیجیے -

یہ کہانی ہے -ایک ایسے سازشی نظریے کی ہے -جس کے سامنے باقی تمام تر سازشی نظریات کوئی کچھ بھی نہیں - یہ سازشوں کا ایک ایسا دستر خوان ہے جس پر دنیا بھر کے تمام سازشی نظریات اکھٹے کر دیے گئے ہیں -

اس سازشی نظریے کے مطابق ’ اِلیومناٹی ‘ دنیا کے تمام تر امور کو کنٹرول کرنے والے طاقتور ترین افراد کا وہ گروہ ہے -جو خفیہ طریقے سے کام کر رہا ہے - اور اس گروہ کا مقصد دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرنا ہے -

اس فرضی کہانی کا آغاز سنہ 1960 کے ایک دلچسپ خیال پر مبنی فِکشن سے ہوا تھا -

جب کئی لوگوں نے اس خفیہ سوسائٹی کی تاریخ کو جاننے کی کوشش کی تو وہ اپنے آپ کو جدید دور کے جرمنی میں پاتے ہیں -جہاں 'آرڈر آف اِلیومناٹی' کا قیام ہوا تھا -

یہ بھی پڑھیے

چاند پر انسانی کمند اور سازشی مفروضے

ذہین افراد افواہوں پر کیوں یقین کر لیتے ہیں ؟

لوگ بحرانی کیفیت میں سازشی نظریات کا زیادہ شکار کیوں ہوتے ہیں ؟

یہ سنہ 1776 میں بَویریا کی ریاست کے رہنے والے دانشوروں کی ایک خفیہ سوسائٹی تھی -جس کا مقصد پوشیدہ طور پر مل جل کر عام لوگوں کی روز مرّہ زندگیوں پر مذہب اور اشرافیہ کے تسلط کے خلاف مزاحمت کرنا تھا - ان میں اس وقت کے کئی نامور ترقی پسند بھی شامل تھے -تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو قدامت پسند اور مسیحی ناقدین نے ’ فری میسنز‘ نامی تنظیم کی طرح غیر قانونی قرار دلوا دیا اور اس طرح اس گروہ کا وجود ختم ہو گیا -


سنہ 1960 تک یہ معاملہ ایسا ہی تھا - براڈکاسٹر ڈیوِڈ برام ویل جنھوں نے اپنی پوری زندگی اس فرضی قصے کے بارے میں معلومات جمع کرنے میں صرف کی ، انھوں نے مجھے بتایا، کہ ہم جس الیومناٹی کے بارے میں آج جانتے ہیں -اس کا بویریا کی اُس خفیہ سوسائٹی سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے -جس کے ساتھ اسے جوڑا جاتا ہے -

حقیقت میں آج کے جدید دور میں اس فرضی قصے کی دوبارہ سے [بے بنیاد] مقبولیت کی وجہ آج کے زمانے کا کاؤنٹر کلچر ، جس میں ایل ایس ڈی جیسی منشیات کے استعمال کرنے کا جنون اور مشرقی ممالک کے فلسفوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی شامل ہے ، جیسے عوامل ہیں -

اِس قصے کا اُس دور میں آغاز ’ سمر آف لوو ‘ کہلانے والے ہِپّی اجتماع اور ہپی طرزِ حیات سے ہوا جب چھوٹی سی کتاب کہیں سے سامنے آئی جس کا لاطینی زبان میں عنوان تھا ’ پرِنسیپیا ڈِسکارڈیا -‘

قصہ مختصر یہ کتاب ایک مزاحیہ عقیدے ’ ڈِس کارڈین ازم ‘ [نااتفاقیت] کی ایک مزاحیہ مقدس کتاب تھی - یہ چند منچلے انتشار پسند اور مفکروں کے دماغوں کی اختراع تھی تاکہ پڑھنے والے افراتفری کی دیوی ’ ایرِس ‘ کی پرستش کریں -

’ نااتفاقیت ‘ ایک ایسی تحریک تھی جس کا مقصد سول نافرمانی کی حوصلہ افزائی، ٹھٹّے بازی ، عملی مذاق ، اور افواہیں پھیلانا تھا -

یہ کتاب ’ ثقافتی ضد ‘ کے تجسس سے زیادہ حیثیت کبھی حاصل نہیں کر سکی ، مگر اس کے ایک عقیدے کو مصنف رابرٹ اینٹون وِلسن نے امر کر دیا - اس عقیدے کے مطابق اس نوعیت کی تخریب کار سرگرمیاں سماجی تبدیلیاں لا سکتی ہیں -اور افراد کو سوالات اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہیں -

برام ویل کے مطابق ولسن اور ’ پرنسیپیا ڈِسکارڈیا ‘ کے ایک مصنف کیری تھارن لی نے طے کیا کہ چونکہ دنیا میں مطلق العنانیت، سختی اور کنٹرول میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے -اس لیے وہ معاشرے کو جھٹکا دینے کے لیے افراتفری پھیلائیں گے اور اس مقصد کے حصول کا طریقہ غلط اطلاعات پھیلانا تھا - تمام ذرائع بشمول ' ثقافتی ضد ' اور میڈیا کے ذریعے غلط اطلاعات پھیلائی جائیں - اور انھوں نے سوچا کہ وہ ابتدائی طور یہ کام اِلیومناٹی کے متعلق کہانیاں بنا کر پیش کریں گے -

اُس زمانے میں وِلسن مردوں کے ایک جنسی میگزین ’ پلے بوائے ‘ کے لیے کام کرتے تھے - انھوں نے اور اُن کے ساتھی تھارنلی نے اس خفیہ تنظیم اِلیومناٹی کے بارے میں قارئین کے ناموں سے جعلی خطوط لکھنے شروع کر دیے - پھر انھوں نے پہلے بھیجے ہوئے خطوط کی تردید کے لیے مزید خطوط بھیجنے شروع کر دیے -


برام ویل کہتے ہیں -کہ ’اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما تھا -کہ اگر آپ ایک کہانی کے بارے میں بڑی تعداد میں متضاد معلومات پھیلانا شروع کر دیں -تو لوگ اس کی جانب دیکھنا شروع کر دیں گے اور سوچیں گے کہ " ایک منٹ " یہ معلومات مجھے جس انداز میں ملی ہیں -کیا میں ان پر بھروسہ کر سکتا ہوں ؟‘


" یہ لوگوں کو افسانوی حقائق کی جانب متوجہ کرنے کا ایک مثالی طریقہ ہے -اور یہ حقیقتیں ظاہر ہے -اس انداز میں وقوع پذیر نہیں ہوئی ہوتیں - جس کی لوگوں کو اُمید ہوتی ہے -"

اِلیومناٹی کی فرضی داستان سے جڑی افراتفری دنیا کے ہر کونے تک پھیل گئی - وِلسن اور پلے بوائے کے ایک اور مصنف نے ’ دی اِلیومناٹس ! ٹرائیلوجی ‘ لکھ ڈالی جس میں امریکی آنجہانی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل جیسے واقعات پر پردہ ڈالنے کی ذمہ داری بھی اِلیومناٹی پر عائد کر دی گئی -

یہ کتاب حیران کن حد تک اتنی کامیاب اور مقبولِ عام ہوئی کہ لیورپول میں اس پر ایک ڈرامہ بھی پیش کیا گیا جس کے ذریعے برطانیہ کے دو اداکاروں بِل نگی اور جِم براڈبینٹ کے کرئیر آغاز ہوا -

برطانوی الیکٹرانک بینڈ ’ دی کے ایل ایف ‘ اپنے آپ کو ' قدیم قابلِ جواز مومو' بھی کہتے ہیں - یہ نام 'نااتفاقیت' کا عقیدہ رکھنے والوں کے اُس بینڈ سے لیا گیا ہے -جو افراتفری کے عقیدے سے متاثر ہو کر وِلسن کی کتابوں میں اِلیومناٹی میں شامل ہو جاتے ہیں -

پھر اِلیومناٹی کے کرداروں پر مبنی ایک تاش کا کھیل سنہ 1975 میں ظاہر ہوتا ہے -جو اس پوری نسل کے ذہن پر پراسرار خفیہ سوسائٹی کی دنیا کے نقوش بِٹھا دیتا ہے -

آج یہ دنیا کے سب سے زیادہ مانے جانے والے سازشی نظریات میں سے ایک ہے -یہاں تک کہ بڑی بڑی سیلیبریٹیز مثلاً جے زی اور بیونسے نے بھی اس گروپ کی علامات کو اپنایا ہے -اور اپنے کنسرٹس کے دوران اپنے ہاتھ اِلیومناٹی کی تکون بنانے کے انداز میں بلند کیے ہیں - یہ شاید انتہائی عجیب قسم کا اشتعال انگیز جذباتی لمحہ ہوتا ہے -جب یہ احساس ہوتا ہے -کہ یہ سب کچھ جعلی ہے - جو کہ نااتفاقیت کے عقیدے کے حامیوں کا اصل مقصد تھا -

سنہ 60 کی دہائی کے زمانے کی محدود اور مختصر طباعتی ثقافت آج کے عالمگیریت کے دور میں شاید بہت ہی قدیم زمانے کی بات لگتی ہے - اور یہ بات بلاتردید کہی جا سکتی ہے -کہ آج کے دور میں اِلیومناٹی کی افواہوں کی تھیوری کو جو شہرت ملی ہے -اس کی وجہ انٹرنیٹ پر مختلف پلیٹ فارمز مثلاً 4 چین اور ریڈاٹ پر اس کے بارے میں معلومات شیئر کرنا ہے -

لیکن ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں -جو کہ سازشی نظریات سے بھری ہوئی ہے -اور ، اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے -کہ اس دور میں سازشی نظریات کے ماننے والے بھی بہت ہیں - سنہ 2015 میں سیاسی علوم کے ماہرین نے دریافت کیا کہ امریکہ کی نصف آبادی کم از کم ایک نہ ایک سازشی نظریے کی ضرور تائید کرتی ہے -

ان میں اِلیومناٹی سے لے کر اوبامہ کی جائے پیدائش اور گیارہ ستمبر کے حملوں کے بارے میں یہ خیال ظاہر کرنا کہ یہ تمام کام اندر کے خفیہ لوگوں کا کام تھے یا اس طرح کے دیگر سازشی نظریات شامل ہیں -


اینگلیا رسکن یونیورسٹی کے ماہرِ سماجی نفسیات پروفیسر ویرن سوامی کہتے ہیں -کہ ' سازشی نظریات کو ماننے والوں کا کوئی مخصوص شخصی خاکہ نہیں ہوتا - اس بارے میں کئی آرا ہیں -کہ لوگ سازشی نظریات کو کیوں مانتے ہیں - اور ضروری نہیں -یہ ایک دوسرے کی نفی کرتی ہوں - اس لیے اس کی سادہ ترین وضاحت یہ ہے -کہ جو لوگ ان سازشی نظریات کو درست تسلیم کرتے ہیں -وہ ایک لحاظ سے کسی نہ کسی ذہنی بیماری کے شکار ہوتے ہیں -'

اس موضوع کے دیگر ماہرین ان سازشی نظریات کے بارے میں ایک اور نتیجہ اخذ کرتے ہیں -وہ یہ کہ یہ نظریات ان معاملات کے بارے میں ایک علمی وضاحت دے سکتے ہیں -جو ہمارے لیے سمجھنا مشکل ہوتی ہیں -یا جن سے ہماری عزتِ نفس مجروح ہونے کا خطرہ ہوتا ہے -

سوامی کہتے ہیں -کہ 'یہ [سازشی نظریات] ہمیں ایک سادہ سی وضاحت مہیا کر دیتے ہیں -' سوامی نے سنہ 2016 میں ایک تحقیق کی تھی جس سے معلوم ہوا تھا -کہ جو لوگ سازشی نظریات پر یقین کرتے ہیں -وہ سازشی نظریات پر یقین نہ رکھنے والوں کی نسبت زیادہ ذہنی تناؤ سے گزر رہے ہوتے ہیں - دیگر ماہرینِ علوم نفسیات نے بھی گذشتہ برس یہ دریافت کیا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے سازشی نظریات پر یقین کرنے کا امکان کم ہوتا ہے -

یہ صورتِ حال جدید امریکہ کی ایک تاریک منظر کشی کرتی ہے - خاص کر سوامی کے نزدیک جنھوں نے اس حوالے سے ایک تبدیلی دیکھی ہے -کہ اب سازشی نظریات کے مواد کو کون فروغ دیتا ہے -

"خاص طور پر جنوبی ایشیا میں سازشی نظریات تو اب حکومتوں کے ہاتھ میں اپنے عوام کو کنٹرول کرنے کے آلہِ کار ہیں - مغرب میں یہ اس کے بالکل برعکس ہے" یہ ان لوگوں کا موضوع بنتے ہیں -جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے ، جن کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے - اور ان کے اپنے آپ کو بے اختیار سمجھنے کی وہ سوچ ہوتی ہے -جن کی وجہ سے وہ یہ سازشی نظریات قبول کرتے ہیں -جن کی بدولت وہ حکومت کو چیلنج کرتے ہیں - جیسا کہ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بارے میں سازشی نظریہ ہے - اگر لوگ بے اختیار محسوس کرتے ہیں -تو سازشی نظریات انصاف کی خاطر احتجاجی تحریک کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں -اور لوگوں کو سوالات اٹھانے کا جواز فراہم کرتے ہیں -"

"اب جو بڑی تبدیلی آئی ہے - وہ یہ کہ سیاست دان ، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے سازشی نظریات کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے -"

امریکہ کے 45 ویں صدر نے سابق صدر بارک اوبامہ کی جائے پیدائش کے بارے میں بار بار الزامات دہرائے کہ وہ اصل میں امریکی ریاست ہوائی میں پیدا نہیں ہوئے تھے - انھوں نے سنہ 2016 کے انتخابات کے بعد کئی امریکی ریاستوں پر ووٹنگ میں دھاندلی کے الزامات بھی عائد کیے تھے - اور ان کی انتخابی ٹیم پِیزا گیٹ ، باؤلنگ گرین قتلِ عام وغیرہ سمیت کئی پروپیگنڈا کہانیوں کی خالق بھی تھی ، جو اب جعلی ثابت ہو چکی ہیں -

میں نے ویرین سوامی سے سوال کیا ،کہ اُن کی رائے میں کیا ان سازشی نظریات کا استعمال طویل مدت میں طرزِ سیاست کو متاثر کرے گا۔؟ سوامی نے جواب دیا کہ ' اگر لوگ سازشی نظریات پر یقین کریں گے تو وہ مرکزی دھارے کی سیاست میں دلچسپی لینا چھوڑ دیں گے - وہ نسل پرستی ، غیر ملکیوں سے نفرت اور انتہا پسندی جیسے خیالات میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر سکتے ہیں -'


ٹرمپ نے کہا کہ ان کی خواہش ہے -کہ وہ اس طرح کے لوگوں کی نمائندگی کریں ، خاص کر ان علاقے کے لوگوں کی جو کبھی امریکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے تھے - یہ ریاستیں ' رسٹ بیلٹ' کہلاتی ہیں -جن کی صنعتیں زوال کی شکار ہیں -

تاہم بجائے اس کے کہ امریکی عوام یہ سمجھتے کہ وہ اپنے جیسے ایک غیرسیاستدان نمائندے کی وجہ سے ایوان ہائے اقتدار میں بہتر اور مؤثر نمائندگی رکھتے ہیں - اور نظریاتی طور وہ اپنے آپ کو کم بے اختیار محسوس کرتے اور سازشی نظریات کے کم شکار بنتے ' مگر اب حقیقت میں نظر یہ آ رہا ہے -کہ پہلے کی نسبت زیادہ امریکیوں کے الیومناٹی جیسی کہانیوں کو ماننے کے امکانات بڑھ گئے ہیں -

ڈیوڈ برام ویل کہتے ہیں -کہ 'اگر وِلسن آج زندہ ہوتے تو وہ کچھ تو خوش ہوتے اور کچھ صدمے میں ہوتے - سنہ 60 کی دہائی میں انھوں نے سوچا تھا کہ یہ ثقافت بہت زیادہ گھٹن پیدا کر رہی ہے - لیکن اب ایسا لگتا ہے -کہ ہر شے بہت ڈھیلی ہے - ہر شے بکھر رہی ہے -'

"اگر لوگ جعلی خبروں اور پراپیگنڈا کے خلاف جنگ کریں تو شاید نسبتاً زیادہ استحکام آ سکے - ہم اب یہ محسوس کرنے لگ گئے ہیں کہ سوشل میڈیا کس طرح ایسی کہانیاں پیش کر رہا ہے جو ہم سننا چاہتے ہیں -"

انٹرنیٹ فورمز پر بحثوں ، عوام میں تائید اور انسانی تخیل کی کھلی آزادی کے باوجود ہو سکتا ہے -کہ آج سچ کے متلاشی اور حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والے الیومناٹی جیسی فرضی داستانوں کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیں -ایک ناقابلِ احتساب اور خفیہ اشرافیہ کا تصور اُن لوگوں کے ذہنوں پر ضرور حاوی ہو سکتا ہے -جو خود کو کمزور اور پسماندہ تصور کرتے ہیں -

ایران میں پراسرار دھماکے اور آگ: تازہ واقعے میں سات کشتیوں میں آگ لگ گئی


ایران کے ریاستی میڈیا کے مطابق ملک کے جنوب میں بوشہر کی بندرگاہ میں کھڑی کم از کم سات کشتیوں میں پراسرار طور پر آگ بھڑک اٹھی جس پر حکام کے مطابق قابو پا لیا گیا ہے -

ایران میں سرکاری ذرائع ابلاغ سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق یہ آگ اس شپ یارڈ میں لگی -جہاں بحری جہاز اور کشتیاں بنائی جاتی ہیں -

ہنگامی حالات سے نمٹنے کے ادارے کے ایک مقامی اہلکار نے ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کو بتایا کہ آگ پر قابو پا لیا گیا ہے -اور کوئی جانی نقصان ہونے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے -

آگ لگنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے -لیکن حالیہ ہفتوں میں ایران کی کئی حساس اور دفاعی نوعیت کی تنصیبات میں اس طرح کی آگ لگنے کے پراسرار واقعات ہیش آچکے ہیں -

ان میں میزائل فیکٹری ، ایک بجلی گھر ، ایک میڈیکل کلینک اور ایک جوہری تنصیبات کا کمپلیکس بھی شامل ہے -جہاں دھماکے اور آگ لگنے کے واقعات ہو چکے ہیں -

حالیہ واقعات کے بعد یہ افواہیں پھیل رہی ہیں -کہ یہ سبوتاژ کی مہم کا حصہ ہو سکتے ہیں -

پیر کو شمال مشرقی شہر مشہد میں ایک صنعتی زون میں گیس ذخیرہ کرنے والے چھ ٹینکس میں آگ لگ گئی تھی -جس میں سے ایک دھماکے سے تباہ ہو گیا تھا -

اتوار کو جنوب مغربی شہر ماہ شہر ایک پیٹروکیمیکل فیکٹری میں آگ لگ گئی تھی -جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ تیل رسنے سے لگی تھی -

تہران میں آگ بجھانے والے عملے کے مطابق ہفتے کو شہر کی ایک رہائشی عمارت کے تہخانے میں کئی گیس سلینڈر پھٹ گئے تھے -

ایران کے حکام کا کہنا ہے -کہ وہ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں -کہ نتانز کے یورنیم افژودہ کرنے والے پلانٹ اور خوجر کی میزائل فیکٹری میں ہونے والے دھماکوں کے پیچھے بیرونی عناصر یا ملک کے اندر ایران مخالف گروہوں کا ہاتھ تو نہیں -


سنہ دو ہزار دس میں امریکہ اور اسرائیل میں تیار کیے جانے والے ایک کمپیوٹر وائرس سے نتانز کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا -

ایران میں حال ہی میں پیش آنے والے واقعات:

جون کے آخر سے ایران کے مختلف علاقوں میں پرسرار دھماکے اور آگ لگنے کے واقعات سامنے آئے ہیں -

26 جون :- ایران کے علاقے پارچن کے قریب واقع کھوجر کی بلِسٹک میزائلوں کے لیے تیل فراہم کرنے والی اہم تنصیب پر دھماکہ ہوا - جبکہ اس دن ایران کے شہر شیراز میں ایک بجلی گھر میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا جس کے باعث شہر کی بجلی معطل ہو گئی تھی -

30 جون :- ایران کے ایک ہسپتال میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجہ میں 19 افراد ہلاک ہوئے -

دو جولائی :- نتانز کی جوہری تنصیب میں دھماکہ اور آتشزدگی -


تین جولائی :- ایران کے شہر شیراز میں بڑی پیمانے پر آگ لگنے کا واقعہ -

پاکستان اوربھارت میں دیامیر بھاشا ڈیم کے معاملے پر محاذ کھل سکتا ہے:

امریکی ماہرین نے بھی کہا چین اور بھارت میں اگلا مرکز کشمیر ہوسکتا ہے -گرم محاذ کی وجہ دیامیر بھاشا ڈیم ہے، جو تکمیل کے بعد دنیا کے بڑے ڈیموں میں ایک ہوگا۔سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد مسعود




لاہور (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔17جولائی 2020ء) سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا ہے -کہ دیامیر بھاشا ڈیم کے معاملے پر پاکستان اوربھارت میں محاذ کھل سکتا ہے -امریکی ماہرین نے بھی کہا چین اور بھارت میں اگلا مرکز کشمیر ہوسکتا ہے- گرم محاذ کی وجہ دیامیر بھاشا ڈیم ہے - جو تکمیل کے بعد دنیا کے بڑے ڈیموں میں ایک ہوگا - انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں بتایا کہ بھارت نے پاکستان کے دیامیربھاشاڈیم پر شدید اعتراضات اٹھائے ہیں - ان کی وزارت خارجہ اور میڈیا پروپیگنڈا کررہا ہے کہ یہ ہمارے علاقے میں بنایا جا رہا ہے -

جبکہ چین کی طرف سے کہا گیا ہے -کہ بالکل ایسی کوئی بات نہیں ہے - چین نے دیامیر بھاشا ڈیم سے متعلق الزامات کو مسترد کیا ہے - لیکن اس سے زیادہ خوفناک بات امریکا کے ماہرین کر رہے ہیں -کہ چین اور بھارت کے درمیان آئندہ کشمیر بڑا محاذ ہوسکتا ہے -

اس کی وجہ دیامیر بھاشا ڈیم ہے - دیامیر بھاشا ڈیم 4500 میگاواٹ کا پراجیکٹ ہے - جب یہ مکمل ہوجائے گا -تو یہ دنیا کے بڑے ڈیموں میں ایک ہوگا -

دوسری جانب ڈاکٹر شاہد مسعود نے فائیو جی سے متعلق بتایا کہ ایران ، چین ، روس اور جنوبی کوریا میں جاسوسی کرنا بہت مشکل ہے - لیکن جہاں پر جمہوریت ہے -جیسا کہ پاکستان ، انڈیا ، یورپ وہاں پر لوگ گھوم رہے ہیں - یہاں شناخت چھپانا مشکل ہوگیا ہے -ہواوے چین کا ہے - کارپوریٹ اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان وہ چیز ختم ہوگئی ہے - اب کھیل ٹیکنالوجی کا ہوگیا ہے - 2012ء میں برطانیہ میں ایک اسکینڈل آیا - کہ جو بچے پیدائش کے دوران مرجاتے ہیں - ان کا ریکارڈ نکال کر ان کو بڑا کریکٹر بناکر پیش کیا جائے - اگر کوئی تلاش بھی کرنا چاہے تو ہسپتال سے بھی بچے کا اصل والا ریکارڈ ملے۔فائیوجی سے انٹیلی جنس اور جاسوس کا خطرہ ہے - یہ جاسوسی کا ایک مئوثر ہتھیار ہے -

بھارتی پولیس نے پاکستان کا جاسوس غبارہ پکڑنے کا دعویٰ کردیا :

بھارتی پولیس نے کھیتوں سے ملنے والے کھلونا غباروں کو پاکستانی جاسوس قرار دے دیا - خفیہ ایجنسی بھی حرکت میں آگئی -

نئی دہلی [ تازہ ترین ۔ 16جولائی 2020ء ] بھارتی پولیس نے پاکستان کا جاسوس غبارہ پکڑنے کا دعویٰ کردیا - بھارتی پولیس نے کھیتوں سے ملنے والے کھلونا غباروں کو پاکستانی جاسوس قرار دے دیا - خفیہ ایجنسی بھی حرکت میں آگئی - تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست راجستھان میں ضلع شری گنگانگر کے مٹیلی راٹھن تھانہ علاقہ میں ایک کھیت میں مبینہ طور پر پاکستان کی جانب سے آیا ہوا کھلونا نما غبارہ برآمد ہوا -

لیکن بھارتی پولیس نے روایت برقرار رکھتے ہوئے انہیں پاکستانی جوسوس قرار دیدیا - بھارتی پولیس کے مطابق صبح دولت پورہ گاؤں کے قریب لوگوں نے کرشن لال جاٹ کے کپاس کے کھیت میں کٹیلی تاربندی کے نزدیک غبارہ دیکھا - پولس کے مطابق غبارہ نما کھلونا تقریباً دو فٹ لمبا اور ایک فٹ چوڑا تھا - پلاسٹک سے بنے اس غبارہ پر پی آئی اے کے ساتھ نیچے کی طرف انگریزی میں کچھ مشکوک قسم کے نمبر لکھے تھے -

پولیس کا کہنا ہے -کہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کھلونا بنانے والی کمپنی کا کوئی کوڈ نمبر ہو - غبارہ پر پاکستان کا چاند تارہ کا نشان بھی ہے - پولیس نے غبارہ ضبط کرلیا ہے - پولیس کی جانب سے خیال کیا جارہا ہے -کہ پاکستان نے جاسوسی کی لیے یہ غبارہ چھوڑا ہے - اس حوالے سے بھارتی خفیہ ایجنسی بھی تحقیقات کر رہی ہے -اور غبارہ اب انکی تحویل میں ہے - واضح رہے کہ اس سے قبل بھی بھارتی اداروں کی جانب سے پاکستان کیخلاف مضحکہ خیز دعوے کیے جاتے رہے ہیں - جسے آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا -

مئی کے مہینے میں بھارتی فوج نے کشمیر کا تھوا سیکٹر سے پاکستان کا جاسوس کبوتر پکڑ لیا تھا - بھارتی فوج کی جانب سے کہا جا رہا تھا -کہ اس کبوتر پر شک ہے -کہ یہ جاسوسی کی ٹریننگ لیتا رہا ہے - اس بات پر بین الاقوامی میڈیا پر بھی بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی تھی -اور بعد میں اس کبوتر کر چھوڑ دیا گیا تھا -

ترکی میں طیارہ گر کر تباہ - اس میں سوار تمام سیکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے -



انقرہ [ آن لائن] ترکی کے صوبے وین میں دشمن کی موجودگی کی کھوج میں مصروف طیارہ پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا - جس کے نتیجے میں 7 سیکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے - 

عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق جمعرات کو ہونیوالے اس حادثے کی وزارت داخلہ نے بھی تصدیق کردی،  اور سلیمان سوئیلو نے بتایا کہ ' ہماری ٹیم نے ہمیں بتایا ہے -کہ ہمارے  سات ہیروز مارے گئے  ہیں - جن میں دو پائلٹ ہیں'، مائونٹ آرٹوس پر 2200 میٹر کی بلندی پر طیارہ تباہ ہوا ، طیارے نے وین فیرٹ میلین ایئرپورٹ سے اڑان بھری تھی -

ان کا مزید کہنا تھا -کہ 2015 ماڈل کا طیارہ پیر سے وین اور ہکی صوبوں میں جاسوسی اور نگرانی کے مشن پر تھا - پائلٹ نے آخری دفعہ اس وقت کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا جب اڑان بھرے تقریباً  چار گھنٹے ہوچکے تھے - اور وہ بسکیلہ ضلع کی حدود میں تھا ، اس رابطے کے 13 منٹ بعد ریڈار سے رابطہ بالکل ہی ختم ہوگیا -اور وہ خود بھی بعد میں اس علاقے میں پہنچ گئے جہاں طیارہ تباہ ہوا -

ابتدائی طور پر طیارے کی تباہی کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی -