ہفتہ، 18 جولائی، 2020

کورونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستانی سیکس ورکرز کِس حال میں ہیں-؟



ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا کورونا ، کورونا کا شور مچا ہے - ہر ایک کی طرح عاشی اور شہزادی نے بھی یہ مشورے سینکڑوں نہیں تو درجنوں بار ضرور سُنے ہیں - فرق صرف یہ ہے -کہ لوگ اِن ہدایات پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں -جبکہ اِن دونوں کا پیشہ اُنھیں یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا -

عاشی اور شہزادی [فرضی نام] سیکس ورکرز ہیں -اور پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں میں جسم فروشی کا کام کرتی ہیں - ہم نے جاننے کی کوشش کی کے وہ سیکس ورک کی طرف کس طرح آئیں -اور کورونا ان کی زندگیوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے -؟

عاشی ، لاہور

میں لاہور میں رہتی ہوں -اور مجھے اِس شعبے میں آئے چار سے پانچ سال ہو گئے ہیں - میں یہاں ایک شخص سے وابستگی کے بعد آئی - میری اُس سے دوستی ہوئی اور اُس نے مجھے اِس کام میں پھنسا دیا -

میں شادی شدہ تھی -اور گھر میں آئے دن ہماری لڑائی رہتی تھی -کیونکہ شوہر کی کمائی ہی نہیں تھی - پھر میرا فون کے ذریعے ایک لڑکے سے رابطہ ہوا - ایک دن اُس نے مجھے باہر بلوایا - پھر وہ مجھے ایک جگہ لے گیا جہاں وہ مزید تین چار لڑکوں کو لے آیا - وہ بولا کہ اِس طرح کرو گی تو آپ کو پانچ سو روپیہ ملے گا -

اس وقت میرے حالات ایسے تھے -کہ مجھے یہ کرنا پڑا لیکن پھر مجھے بھی عادت ہو گئی - میں نے سوچا چلو کمانے کا ایک ذریعہ سہی -

میرے سات بچے ہیں - میں نے سوچا گھر میں کمائی آئے گی تو بچوں کے ہی کام آئے گی - میں اُن کے ہی لیے یہ سب کچھ کر رہی ہوں- سب کو پڑھا رہی ہوں - میرے ساتھ اس گھر میں میرا خاوند بھی ہے - ساس بھی ہیں، دیور بھی رہتے ہیں - لیکن میں انھیں یہ کہہ کر جاتی ہوں -کہ میں ملازمت کرنے جا رہی ہوں -

کورونا وائرس سے ہمارے کام پر بہت فرق پڑا ہے - ہماری فیلڈ کی ساری لڑکیاں کم از کم جنھیں میں جانتی ہوں وہ باہر نکلنا کم ہو گئی ہیں - میں بھی پہلی بار تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد باہر نکلی تھی - جب دیکھا کہ گھر میں حالات اِس قابل نہیں ہیں تو پھر باہر نکلنا پڑا -

لیکن اب ہر شخص ہمارے پاس آتے ہوئے ڈرتا ہے - لوگ ڈرتے ہیں -کہ کہیں اُنھیں بھی کورونا نہ ہو جائے - ہم لوگ بھی اُنھیں بلاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ سو وہم آتے ہیں - اِس وجہ سے کام بہت کم ہوگیا ہے -

جب ہم دیکھتے ہیں -کہ کسی شخص کو کھانسی ہے ، نزلہ ہے -تو اُن لوگوں سے ہم ملتے بھی نہیں ہیں -کہ کہیں انھیں کورونا نہ ہو - خوف آتا ہے -کہ کہیں ایسے لوگوں سے مل کر ہم اپنا نقصان ہی نہ کر لیں -

لیکن اگر کوئی بندہ لگتا ہے -صحت مند ہے -تو اُس سے ہزار ، پانچ سو لے لیتے ہیں ۔ اِس طرح دیہاڑی کا خرچہ نکل آتا ہے - کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں لوگوں کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے - اپنے پرانے گاہکوں کو فون کرنا پڑتا ہے -کہ پانچ سو ہزار (روپے) بھجوا دو - کچھ لوگ کر دیتے ہیں اور کچھ بہانے بنا دیتے ہیں -

ہمارا کام ہی ایسا ہے -کہ اِس میں سماجی فاصلہ نہیں ہو سکتا - جتنی مرضی احتیاط کر لیں لیکن نہیں ہو سکتا - ہم سب لڑکیوں میں سے کسی نے کورونا کا ٹیسٹ تو نہیں کروایا ہے - لیکن اب تک کسی میں کورونا کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی ہیں -

میں نے سُنا ہے -کہ وائرس دن بدن بڑھتا جا رہا ہے - بے شک پابندیاں ختم بھی ہو جائیں لیکن وائرس کے ڈر سے لوگ کہیں نہیں جائیں گے -


شہزادی ، کراچی:

مجھے اِس فیلڈ میں پندرہ بیس سال ہو گئے ہیں - شادی شدہ ہوں اور میرے چار بچے ہیں - میرے شوہر کماتے نہیں تھے -تو پھر ظاہری بات ہے -آج کل کے حالات میں بنا پیسوں کے تو کچھ بھی نہیں ہوتا - تو میری ایک دوست تھیں وہ مجھے لے کر آئیں - انھوں نے بولا یہ کام کرنا ہے - پہلے تو میں بالکل بھی -اِس کام کے حق میں نہیں تھی -لیکن جب گھر میں زیادہ مسائل ہوئے تو مجھے مجبوراً اِس کام میں آنا پڑا -

میں نے اپنے گھر والوں کو یہ بتایا ہے -کہ میں بنگلے میں کام کرتی ہوں - مجھے گھر کے کام کاج کے لیے رکھا ہوا ہے -

شوہر کو میرے کام کا پتا ہے - لیکن جب وہ کوئی کچھ دے نہیں سکتا تو منع کیا کرے گا - اُنھیں تو پیسوں سے مطلب ہے - کہ پیسہ کماؤ اور گھر لے کر آؤ -

اب جیسے یہ کورونا کا مسئلہ چلا ہوا ہے -تو کام بالکل نہیں آتا - ہم فارغ بیٹھے رہتے ہیں - سارا سارا دن ۔ اکا دکا گاہکوں سے تو ہمارا گھر نہیں چلتا - ہم خود بہت پریشان ہو گئے ہیں - کہ کمائیں کیا اور کھائیں کیا -اگر کسی کو مدد کے لیے کہا بھی تو جواب ملا کہ تم یہ کام کرتی ہو خود کما کر کھا لو -


کئی مہینوں کے بعد اب کام کُھلا تو ہے -لیکن وہ پہلے والی بات نہیں ہے - پہلے ہم دن میں تقریباً تیس چالیس گاہک کر لیتے تھے -لیکن اب تیس چالیس تو بہت دور کی بات ہے -دو تین ہی ہو جائیں تو بڑی بات ہے - گاہک بھی آتے ہوئے گھبراتے ہیں - ہم بھی گھبراتے ہیں -لیکن کیا کریں ہم نے تو کمانا ہے - اب ہم اپنا گاہک اِن سب چیزوں کے لیے تو نہیں چھوڑ سکتے - اگر بندے کو کوئی مسئلہ ہو بھی تو ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے - ہم اُس کو منھ پر تو منع نہیں کر سکتے کہ ہم نہیں کر رہے تم جاؤ -

ہم نے تو آج تک کسی کو نہیں دیکھا کہ کوئی ماسک لگا کر یا سینیٹائزر استعمال کرنے کے بعد یہ کام کرے - کسی نے اگر یہاں آنے سے پہلے ماسک پہنے ہوتے ہیں -تو وہ بھی اُتار دیتے ہیں - ظاہری بات ہے -کہ لوگ جب یہ کام کرنے آتے ہیں -تو وہ تو وحشی ہی ہوتے ہیں -ناں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وائرس کسی دوسرے کو بھی لگ سکتا ہے - پھر اُن کی باتیں ماننی پڑتی ہیں - اگر ہم کچھ کہتے ہیں -تو جواب ملتا ہے -کہ اگر ایسا ہے -تو گھر میں بیٹھو باہر ہی کیوں نکل رہی ہو -

0 تبصرے: